ڈاکٹر ریحان توقیر کو امریکہ جانے سے روکنے کے لیے پاکستانی ادارے و عدالتیں متحرک

کوٹلی ( کاشگل نیوز)

پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کے رہائشی اور لاہور کے معروف ہسپتال میں بطور کارڈیالوجسٹ خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر ریحان توقیر کو فیملی امیگریشن ویزہ پر امریکہ جانے سے روکنے کے لیے پاکستان کے وفاقی ادارے اور عدالتیں متحرک ہیں۔ ڈاکٹر ریحان توقیر کا قصور محض اتنا ہے کہ ان کی ولدیت کے خانے میں سید توقیر حسین شاہ لکھا ہے۔ یعنی وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے زونل صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی کے بیٹے ہیں۔

ڈاکٹر ریحان توقیر نے چار جون 2025 کو یوایس فیملی امیگریشن ویزہ پر امریکہ جانا تھا۔ اس امیگریشن پراسیس کے دوران انہوں نے یو ایس میڈیکو لیگل ایگزام کلیئر کر رکھا تھا اور انہیں ملازمت پر حاضر ہونا تھا

ڈاکٹر ریحان توقیر نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر بورڈنگ پراسیس کلیئر کیا، فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے امیگریشن آفس نے تمام ڈاکومنٹس دیکھنے کے بعد پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگائی اور ڈاکٹر ریحان ویٹنگ لاؤنج سے ہوتے ہوئے طیارے پر سوار ہو گئے۔ طیارے سے انہیں ایف آئی اے نے آف لوڈ کر دیا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام پروویژنل نیشنل آئیڈنٹیفیکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) میں شامل ہے۔ اس لیے وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔

پی این آئی ایل ایک عارضی فہرست ہوتی ہے، جسے ای سی ایل کی ضمنی لسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اس لسٹ میں ان افراد کو شامل کیا جاتا ہے، جن کو بیرون ملک سفر سے فوری روکنا مقصود ہو اور ای سی ایل میں نام ڈالنے کے پراسیس میں ابھی وقت درکار ہو۔

ڈاکٹر ریحان نے اگلے روز ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ معاملہ ایمرجنسی نوعیت کا تھا عدالت نے پندرہ روز بعد اٹھارہ جون کو ایف آئی اے کو معاملہ سماعت کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ ایف آئی اے نے مزید پندرہ روز بعد فیصلہ کیا اور لکھا کہ ڈاکٹر ریحان کا نام کوٹلی پولیس کی درخواست پر پی این آئی ایل میں ڈالا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ڈاکٹر ریحان کے خلاف 21 نومبر 2024 کو کوٹلی میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کے جواب کے بعد کیس خارج کر دیا۔

حقیقت میں ڈاکٹر ریحان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہی نہیں ہے اور 21 نومبر 2024 کی ایف آئی آر میں بھی ڈاکٹر ریحان کا نام شامل نہیں ہے۔ کوٹلی پولیس نے اس ایف آئی آر کے اندراج کے 5 ماہ بعد ڈاکٹر ریحان کو پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ بھی جاری کر رکھا ہے، جس میں واضح طور پر درج ہے کہ ریحان توقیر کا کوئی کریمنل ریکارڈ پولیس کے پاس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کے میو ہسپتال میں ڈاکٹر ریحان کی 21 نومبر 2024 کو ڈیوٹی پر حاضری بھی لگی ہوئی ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ اس بار ایمان مزاری کو بطور کونسل مقرر کیا گیا۔ پندرہ روز بعد پھر معلوم ہوا کہ جج دو ماہ کے لیے چھٹی پر چلا گیا ہے، اس لیے اب آئندہ سماعت 16 ستمبر کو ہوگی۔

ڈاکٹر ریحان کے والد ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو ریحان کا ویزہ ایکسپائر ہوجائے گا، ریحان کو اکتوبر سے قبل امریکہ پہنچنا ہے۔ فیملی امیگریشن ویزہ میں ایک مخصوص مدت کے اندر امریکہ میں داخل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بصورت دیگر یہ سارا امیگریشن پراسیس دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کی فیملی امیگریشن کا پراسیس انتہائی پیچیدہ اور لمبا ہے۔ ڈاکٹر ریحان تین سال کے پراسیس کے بعد یہ ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اب ان کے ٹکٹ کی رقم ضائع ہوچکی ہے، نوکری بھی ملنے سے پہلے ہی چھن چکی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اب انہیں خدشہ ہے کہ انکا ویزہ بھی ایکسپائر ہوجائے گا اور انہیں ایک بار پھر تین سال کی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ ڈاکٹر ریحان کی امریکہ میں ہی شادی ہوئی ہے اور اب ریحان کو اپنی اہلیہ کے پاس جانے کے لیے تین سال کی مزید کوشش کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

والد کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے والی ریاست نے اب اس کے بیٹے کے کیریئر پر حملہ کیا ہے اور اس کے بیٹے کو اپنی بیوی سے دور رکھنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ اس بدترین کلونیل حرکت میں کالونائزر کے امیگریشن ادارے اور اعلیٰ عدالت نے ہی قانون اور انصاف کی دھجیاں نہیں بکھیری ہیں، بلکہ کلونیل سیٹ اپ کی پولیس نے بھی خود ہی کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بعد ایک جعلی ایف آئی آر میں ڈاکٹر ریحان کو ملوث قرار دے کر قانون اور انصاف کے منہ پر کالک ملی ہے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر توقیر گیلانی بھی خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے خلاف ریاست نے توہین مذہب کا مقدمہ درج کر رکھا ہے اور اسی طرز کی عدالتی کارروائی کے بعد وہ اپنا مستقبل جیل میں سڑتا دیکھ کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اب ان کے خاندان سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ بالخصوص ڈاکٹر ریحان کا تعلق نہ تو ان کی جماعت سے ہے اور نہ ہی وہ تحریک میں کہیں شامل رہے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ ڈاکٹر توقیر گزشتہ چالیس سال سے اس خطے میں قومی آزادی کی سیاست ہی کرتے آئے ہیں۔اس سے قبل انہیں مقدمات کا تو سامنا کرنا پڑا لیکن موجودہ وقت جس انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ان کے خلاف یہ کارروائی حالیہ تحریک میں متحرک کردار ادا کرنے اور مظفرآباد میں تحریک کے شہداء کے جنازے پر قاتلوں سے انتقام لینے کے عہد پر مبنی تقریر کرنے کی وجہ ہورہی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر ریحان واحد نوجوان نہیں ہیں جنہیں اپنے والد کے تحریک میں کردار کی وجہ سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں نوجوان ایسے ہیں جن کے کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ مقدمات ختم کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود جعلی مقدمات میں نامزد افراد کو مفرور قرار دے کر مقدمات عدالت میں چالان کر دیے گئے ہیں۔ اب عدالتی پراسیس کے ذریعے لوگوں کا انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ سامراجی حکمران اپنی نوآبادی کے باسیوں کو ایک جائز حق مانگنے کے لیے احتجاج کرنے پر اب نشان عبرت بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

ڈاکٹر ریحان کو انصاف فراہم کیا جائے اور اسے فوری طور پر سفر کی اجازت دی جائے۔ جعلی اور بے بنیاد سفری پابندی کا فوری خاتمہ کیا جائے.

Share this content: